جوانی میں اولمپک سائیکلسٹ، بڑھاپے میں رکشہ ڈرائیور

اس وقت 82 سالہ محمد عاشق رکشہ چلا کر اپنا گزارا کر رہا ہے   محمد عاشق کو حکومت نےچار بار  قومی ہیرو کے ایوارڈ سے نوازا

1960 کے روم اور 1964 کے ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے اور ایشین گیمز کے علاوہ کامن ویلتھ گیمز میں ملک کے لیے کئی میڈل جیتنے والے سائیکلسٹ محمد عاشق پیرانہ سالی میں لاہور کی سڑکوں پر رکشہ چلانے پر مجبور ہیں۔ اس وقت 82 سالہ محمد عاشق نے، جو لاہور کے علاقے سمن آباد کی ایک تنگ گلی میں کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں، گفتگو میں بتایا کہ وہ حالات کے ہاتھوں تنگ آ کر رکشہ چلانے پر مجبور ہوئے۔انہوں نے بتایا، ’’پہلے میرے پاس ایک ویگن اور ایک ذاتی مکان بھی تھا۔ مگر بیوی کی بیماری اور تنگدستی کے باعث مجھے دونوں املاک بیچنا پڑیں۔ اب میں گز شتہ آٹھ سال سے رکشہ چلا رہا ہوں۔ روزانہ دو تین سو روپے کما لیتا ہوں، جن سے مکان کے کرائے اور بیمار بیوی کے علاج سمیت روزمرہ اخراجات بڑی مشکل سے پورے کرتا ہوں۔‘‘محمد عاشق نے سن 1958 کے ٹوکیو منعقدہ ایشین گیمز میں سلور میڈل جیتا تھا مگر اسی ایونٹ میں روڈ ریس جیت کر انہیں عالمی شہرت ملی تھی۔عاشق کے بقول پاکستان میں ان سے بڑا کوئی  سائیکلسٹ پیدا نہیں ہوا۔ اس لیے انہیں سب سے  زیادہ اذیت اپنے ان 70 تمغوں کو دیکھ کر ہوتی ہے، جو انہوں نے اپنےکیر یئر کے شباب میں قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں جیتے تھے۔محمد عاشق نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’مجھے چار بارحکومت نے قومی ہیرو کے ایوارڈ سے نوازا۔ مگر اب یہ سارے میڈل میرے کسی کام کے نہیں کیونکہ اگر میں انہیں فروخت بھی کرنا چاہوں تو ان کا کوئی خریدار نہیں ملے گا۔‘‘ستم ظریفی یہ کہ عاشق کے بقول دانستہ طور پر ایک ریس نہ ہارنے کی پاداش میں انہیں ان کے آجر ادارے پاکستان ریلویز کی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے جبکہ پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن نے بھی کبھی مڑ کر ان کی خبر نہیں لی۔محمد عاشق کی خواجہ ناظم الدین سے لےکر ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک پاکستان  کے ہر فوجی اور سول حکمران کے ساتھ بلیک اینڈ وائٹ اور رنگین تصاویر ان کی حکومتی ایوانوں تک رسائی کا ثبوت تو ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پھر ماضی کے اس عظیم سائیکلسٹ کی مشکلات اور محرومیاں ختم کیوں نہیں ہوتیں؟

Comments