’افغان کرکٹ کرپشن کا شکار‘

پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر راشد لطیف نے کہا ہے کہ افغانستان کی کرکٹ انتظامی اور مالی بے ضابطگیوں کا شکار ہے لیکن آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل اس سے نظریں ہٹائے ہوئے ہے۔واضح رہے کہ راشد لطیف دس ماہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم کا کوچ رہنے کے بعد اپنے عہدے سے استعفے دے چکے ہیں اور اس کا ذمہ دار وہ افغان کرکٹ حکام اور کھلاڑیوں کی باہمی چپقلش اور سیاست کو قرار دیتے ہیں۔راشد لطیف نے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل افغانستان کو کرکٹ کی ترقی کے نام پر چھ سال میں لاکھوں ڈالرز دے چکے ہیں لیکن انہوں نے کبھی افغانستان کرکٹ بورڈ سے یہ نہیں پوچھا کہ یہ پیسہ کہاں خرچ ہوا ہے؟راشد لطیف نے کہا کہ جب وہ کوچ کی حیثیت سے افغانستان گئے تو انہوں نے غریب لڑکوں کو دھول مٹی میں کھلی جگہوں اور سڑکوں پر کھیلتے دیکھا جس نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اتنا زیادہ پیسہ ملنے کے باوجود افغانستان میں نہ کوئی اسٹیڈیم بنا ہے نہ ہی اکیڈمی ، پھر یہ پیسہ کہاں خرچ ہورہا ہے۔نامہ نگار عبدالرشید شکور کے مطابق راشد لطیف نے کہا کہ انہوں نے آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل کے حکام کی توجہ کئی بار اس جانب مبذول کرائی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پیسہ لٹانے کے لئے نہیں ہے اور یہ آئی سی سی اور اے سی سی کا فرض ہے کہ وہ ’ چیک اینڈ بیلنس‘ کی پالیسی پر عمل کرتے۔آئی سی سی اور اے سی سی دونوں کو اس کا جواب دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ کسی نے بھی افغانستان جاکر کرکٹ کی ترقی کے نام پر ہونے والے کام کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی اور صرف کاغذی خط وکتابت پر ہی اکتفا کرتے رہے ہیں۔راشد لطیف نے کہا کہ افغانستان کی کرکٹ اس وقت تک ترقی نہیں کرے گی جب تک وہاں بنیادی ڈھانچہ تیار نہیں ہوگا۔ جب تک افغانستان میں اسٹیڈیم تعمیر نہیں ہوں گے کھلاڑیوں کے کیمپ نہیں لگیں گے اور اکیڈمی نہیں بنے گی افغانستان کی کرکٹ بین الاقوامی چیلنج کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔انہوں نے کہا کہ ننگرہار کے گورنر کی ذاتی کوشش سے ایک گراؤنڈ بن رہا ہے لیکن اس میں افغانستان کرکٹ بورڈ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔راشد لطیف نے کہا کہ کوچ کا عہدہ چھوڑنے کی وجہ بھی یہ ہے کہ کچھ آفیشلز اور کھلاڑی انہیں پسند نہیں کرتے تھے اور ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور انہیں ناکام بنانے کی کوششیں کی گئی۔

Comments