سال2011ء تمام تر نشیب و فراز کو ماضی میں تبدیل کرتا ہوا اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ شائقین کرکٹ خاص کر کرکٹ کے ایشیائی دیوانوں کے لئے یہ سال خصوصاً بہت اہمیت کا حامل رہا، کیونکہ اِسی سال دنیا بھر کی ٹیمیں دنیائے کرکٹ پر آسٹریلیا کی ایک دہائی طویل اجارہ داری کے خاتمے کے لئے ایشیائی سرزمین پر اکھٹی ہوئی تھیں۔ 1999ء، 2003ء اور 2007ء میں عالمی کپ ٹورنامنٹس جیت کر ہیٹ ٹرک کرنے والا آسٹریلیا رواں سال مسلسل چوتھی مرتبہ یہ اعزاز جیتنے کے لیے سرگرداں تھا لیکن برصغیر سے تعلق رکھنے والی ٹیموں نے اس کی خواہشوں کو دفن کر دیا۔ بھارتی کرکٹ شائقین کا جوش و خروش بلندیوں پر پرواز کر رہا تھا کیونکہ مہندر سنگھ دھونی کی قیادت میں ’ٹیم انڈیا‘ اپنے بہترین دور سے گزر رہی تھی اور اس عالمی کپ میں بھارتی شیروں کو مخالفین کو اپنی ہی کچھار میں زیر کر کے 28 برسوں کے دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا تھا۔
لیکن سال 2011ء کی پہلی ہی ایک روزہ سیریز میں بھارتی کرکٹ ٹیم کو جنوبی افریقہ کے ہاتھوں 3-2 کی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ سال کا آغاز اِس لحاظ سے بھی بھارتی مداحوں کے لئے بہت مایوس کن رہا کیونکہ سیریز کے پہلے ایک روزہ میں ہی جنوبی افریقہ نے135 رنوں کی ذلت آمیز شکست دے کر بھارت کے ہوش اڑا دیے تھے۔ اِس سنسنی خیز سیریز کا اختتام بھی بھارتی کرکٹ ٹیم کی شکست کے ساتھ ہوا۔ عالمی کپ سے چند ہفتے قبل ملنے والی اِس شکست نے ’ٹیم انڈیا‘ کی عالمی کپ کی تیاریوں پر ایک بڑی ضرب لگائی۔
لیکن بھارت کو اپنے ہی میدانوں اور وہاں موجود ہزاروں بلکہ لاکھوں تماشائیوں کی بدولت جو برتری حاصل تھی اس نے کام کر دکھایا۔ فروری کے وسط میں عالمی کپ کے حصول کی طویل، دلچسپ اور ہنگامہ خیز کشمکش کا آغاز ہو ا۔ جس کا انتظار نہ صرف بھارت کے 100 کروڑ سے زائد لوگ بلکہ پوری دنیا بڑی بے صبری سے کر رہی تھی۔ 1983ء کے عالمی کپ فائنل میں مہندر امرناتھ کی گیند پر مائیکل ہولڈنگ کے آؤٹ ہونے کے بعد کا منظر اب بھی کئی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ تھا۔ لیکن اس تاریخی اور یادگار لمحے کو گزرے ہوئے 28 برسوں کا طویل عرصہ بیت چکا تھا۔ اس دوران جوش و ولولے ے بھری کئی آنکھیں بوڑھی ہوچکی تھیں اور بھارت میں کرکٹ شائقین کی پوری ایک نئی نسل پروان چڑھ چکی تھی، جنہوں نے1983کے بعد اِس دنیا میں اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔ ان نوجوانوں کو اُن تاریخی لمحات کے احوال محض اپنے بڑوں کی زبانی یا قدیم اخبارات، جرائد اور ٹیلی وژن ریکارڈنگز اور جھلکیوں کی صورت میں ہی معلوم ہوا اور وہ اُس حقیقی لذت سے محروم تھے جسے ان کے بڑوں نے 28 سال قبل محسوس کیا تھا۔
اس لئے2011کے عالمی کپ میں نئی نسل کی بے صبری اپنی تمام تر انتہاؤں کو عبور کر چکی تھی۔ عالمی کپ 2003ء کے زخم اور عالمی کپ 2007ء کی رسوائی کا تازیانہ لئے جب بھارتی کرکٹ ٹیم 2011ء کے عالمی کپ اکھاڑے میں داخل ہوئی تو ملک کے کرکٹ مداحوں کے ولولے اور جنون ”نہنگوں کے نشیمن“ تہ و بالا کر دینے کے لئے کافی تھے۔
”سچن کا آخری عالمی کپ“ اس فقرے نے بھارت کے کھلاڑیوں اور مداحوں کو دیوانہ کر دیا تھا، اُنہیں کسی بھی صورت میں ’سچن مہان‘ کو جاتے جاتے عالمی کپ کا اعزاز دینا تھا کیونکہ یہی وہ عالمی اعزاز تھا جس کی کمی سچن نے کیریئر میں بہت زیادہ محسوس کی۔ خود سچن بھی اس کمی کو پورا کر کے اپنی ”بد شگونی کی روایت“ کو جھوٹا ثابت کر دینا چاہتے تھے۔
بھارت کے لیے عالمی کپ کا آغاز اچھے انداز سے نہیں ہوا۔ انگلستان کے خلاف اہم گروپ میچ سنسنی خیز مقابلے کے بعد برابری پر ختم ہوا جبکہ ایسو سی ایٹ ٹیموں کی جانب
سے بھی شدید مزاحمت کا سامنا کرنے پر شائقین کی پیشانیوں پر شکنیں نمودار ہونا شروع ہو گئیں۔ یہ شکن اُس وقت اعصاب شکن بن گئی جب بھارت کو اہم ترین گروپ مقابلے میں جنوبی افریقہ سے شکست کھانا پڑی۔ اس شکست کا نتیجہ یہ نکلا کہ ناک آؤٹ مرحلے میں بھارت کا پہلا ٹکراؤ ہی 3 عالمی اور دفاعی چیمپئن آسٹریلیا سے ہو گیا، جو کئی سالوں تک ناقابل شکست رہنے کے بعد گروپ مرحلے میں پاکستان سے شکست کھا چکا تھا۔ آر یا پار کی اِس جنگ میں دونوں ٹیموں کی عزت و ناموس اور وقار داؤ پر لگے ہوئے تھے اور اسی کو بچانے کی دھن میں دونوں ٹیمیں میدان میں اتریں تو گویا گھمسان کا رَن پڑا۔ ایک طرف جہاں ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک نا قابل تسخیر رہنے کا ریکارڈ داؤپر تھا تو دوسری طرف کروڑوں گھریلو مداحوں کے بلند توقعات کی آس رکھنی تھی۔ اور بالآخر بھارتی کرکٹ شائقین کی امیدیں بر آئیں اور بھارت نے آسٹریلوی غرور کو خاک میں ملا کر عالمی اکھاڑے سے باہر پھینک دیا۔ لیکن ’عشق کے امتحاں ابھی باقی تھے‘۔
عالمی کپ کے تاج سے محض دو قدم کے فاصلے پر وہ تاریخی معرکہ رونما پیش آ گیا جس نے برصغیر کے ہر متنفس کو دم بخود کر دیا۔ عالمی کپ2011ء کے سیمی فائنل میں بر صغیر کے دونوں روایتی حریفوں کے درمیان ہونے والے مقابلے نے دنیا ئے کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔ 30 مارچ کو موہالی میں پاک-بھارت اتفاقی مقابلے سے قبل ہی تجزیوں، تبصروں، لفظی جنگ اور جوابی حملوں ایسا سماں باندھ دیا سیمی فائنل کا یہ میچ بلے اور گیند کی کشمکش کی بجائے نفسیاتی کشمکش کی صورت اختیار کر گیا۔ حتیٰ کہ تبصرہ نگاروں میں اِس بات پر اتفاق ہو گیا کہ جس نے اپنے اعصاب کو قابو میں رکھا وہ میدان مار لے گا، اور وہی ہوا۔ شائقین اور میدان کی برتری حاصل ہونے کے باعث پاکستان دباؤ میں آ گیا خصوصاً اس کے فیلڈرز اور بعد ازاں بلے بلے بازوں نے گھٹنے ٹیک دیے اور ایک تاریخی معرکے میں شکست کھا کر پاکستان کو عالمی کپ سے باہر ہونا پڑا۔ بھارت عالمی کپ میں پاکستان کے ہاتھوں نا قابل شکست رہنے کی روایت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا اور اس طرح کرکٹ کی تاریخ میں پہلی دفعہ دو ایشیائی ممالک عالمی کپ کے فائنل میں پہنچ گئے۔
دوسری طرف نسبتاً آسان حریف نیوزی لینڈ کو زیر کر کے فائنل تک رسائی پانے والا دوسرا میزبان سری لنکا عالمی کپ کا ایک مضبوط دعویدار تھا۔ بھارت کو زیر کرنے کے تمام جواہر اس ٹیم میں موجود تھے۔ لیکن بھارتی جانبازوں نے گویا قسمیں کھا رکھی تھیں کہ اب انہیں پیچھے مڑکر نہیں دیکھنا۔فائنل مقابلے میں ایک اچھے اسکور کا تعاقب بھارتی بلے بازوں نے سنبھل کر کیا۔ ا س طرح سال 2011ء میں ’ٹیم انڈیا‘ نے مہندر سنگھ دھونی کی قیادت میں وہ کارنامہ انجام دے ڈالا جس کے لئے بھارتی قوم 28 سالوں سے امیدیں لگائے بیٹھی تھی۔ اب اگلے پانچ سالوں تک دنیائے کرکٹ پر بھارت کی حکمرانی ہے۔
کامیابی کا جشن اگر اپنی حدوں کو تجاوز کرنے پر بھی ختم نہ ہو تو اس کا نشہ انسان کو ایسا بدحواس کر دیتا ہے کہ وہ بغیر کسی محنت، مشقت اور لائحہ عمل کے اپنی اِسی کامیابی کی بنیاد پر مستقبل کو درخشاں و تابناک دیکھنے لگتا ہے۔ اس کی نظروں کے سامنے سے یہ سراب اُس وقت ہٹتا ہے جب حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ عالمی کپ کی جیت یقینی طور پر ایک تاریخی جشن کی مستحق تھی، لیکن اس عظیم فتح کے بعد افسوسناک بات یہ رہی کہ عوام کے ساتھ ساتھ خواص بھی اس جشن میں ایسا مخمور ہوئے کہ مستقبل کے لائحہ عمل کو تیار کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ بورڈ نے عالمی کپ کے عین بعد انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں قومی ٹیم کے کپتان سمیت تمام سرکردہ کھلاڑیوں کو جھونک دیا اور دورۂ انگلستان سے قبل دورۂ ویسٹ انڈیز-جو انگلستان کی سرزمین پر انگریزوں سے مد مقابل ہونے کے لئے تیاری کے لیے ایک انتہائی اہم معرکہ تھا-سے سرکردہ کھلاڑیوں کو آرام کی غرض سے محروم کر دیا گیا۔ نتیجتاً ویسٹ انڈیز کے خلاف ’ٹیم انڈیا‘ کوئی غیر معمولی کارنامہ انجام نہ دے سکی۔ پہلے ٹیسٹ میں جیت کے علاوہ باقی دو ٹیسٹ ڈرا رہے اور ایک روزہ میچوں میں بھی بھارتی ٹیم نے سیریز تو اپنے نام کر لی لیکن اسے دو متواتر شکستوں کے ساتھ وطن واپس لوٹنا پڑا۔
عالمی کپ کے بعد کوچ گیری کرسٹن کی مدت بھی ختم ہو چکی تھی۔ اُن کی سر پرستی میں بھارت نے دو نمایاں کارنامے انجام دیے، پہلا ٹیسٹ درجہ بندی میں اول مقام حاصل کیا اور دوسرا عالمی کپ میں تاریخی کامیابی حاصل کی۔ اس طرح دورۂ ویسٹ انڈیز کے اختتام کے ساتھ ہی بھارتی کرکٹ ٹیم کے ساتھ اُن کے ایک سنہرے اور یادگار سفر کا خاتمہ ہوا۔
بعد ازاں بھارتی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داری ڈنکن فلیچر کو سونپی گئی، جس پر چہار جانب حیرانی و استعجاب کا اظہار بھی کیا گیا۔ ڈنکن فلیچر نیوزی لینڈ کے اسٹیفن فلیمنگ اور اپنے ہم وطن اینڈی فلاور پر سبقت لے جاتے ہوئے ’ٹیم انڈیا‘ کی کوچنگ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اِس ذمہ داری کی ابتدا ہی ڈنکن فلیچر کے لئے ایک سخت چیلنج کے ساتھ ہوئی۔ انہیں ایک ایسی ٹیم کی کوچنگ کا فریضہ سونپا گیا تھا جو ٹیسٹ درجہ بندی میں دوسرے نمبر کی ٹیم انگلستان سے اسی کی زمین پر نبرد آزما ہونے جا رہی تھی۔ اس پر ستم یہ کہ ٹیم کی ایک معتدبہ جماعت ایسے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی جن کے اعصاب سابقہ مقابلوں کی وجہ سے جواب دے چکے تھے۔
”فاتح اعظم“ کی حیثیت سے انگلستان کے ساحل پر قدم رکھنے والی بھارتی کرکٹ ٹیم سے ایک مرتبہ پھر بلند توقعات وابستہ تھیں۔ ٹیسٹ درجہ بندی میں سر فہرست رہنے اور عالمی کپ فاتح ہونے کے اعزاز کی لاج اس سالار کے ہاتھوں میں تھی جس کی قسمت پر پوری دنیا رشک کر رہی تھی۔ ٹیسٹ ٹیموں میں اول مقام حاصل کرنے کا اعزاز، عالمی کپ کی فتح اور پھر آئی پی ایل میں اپنی ٹیم کی شاندار کامیابی کے بعد مہندر سنگھ دھونی دنیا کے کامیاب ترین لوگوں کی فہرست میں شامل ہو چکے تھے۔ انہیں انگلستا ن کو سر کرنے کے لئے نفری تو وہی سونپی گئی تھی جس نے محض چند مہینوں قبل ہر مضبوط سے مضبوط قلعے کو زمیں بوس کیا تھا۔ لیکن اس نفری کی صلاحیتوں کو سابقہ غیر ضروری معرکوں نے زنگ آلود کر دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انگلستان کی سزمین پر ایک ایسے ڈرامے کی شروعات ہوئی جسے دیکھ کر پوری دنیا انگشت بدنداں رہ گئی۔ پہلے ٹیسٹ میچ سے ظہیر خان کے زخمی ہو کر وطن واپس لوٹنے کے بعد ٹیم انڈیا کے تھکے ہارے کھلاڑی اس طرح زخمی ہو کر وطن واپس لوٹنے لگے گویا یہ حقیقت میں کسی میدان جنگ کے پسپا سپاہی ہوں۔ پے در پے ملنے والی شکستوں نے بھارتی سرماؤں کے ایسے ہوش اڑائے کہ ٹیسٹ میچوں میں 4-0 کی ہزیمت تو اٹھانی ہی پڑی ایک روزہ مقابلوں میں بھی وہ محض ایک جیت کے لئے ترستے رہ گئے جو انہیں نصیب نہ ہو سکی اور بالآخر ٹیسٹ درجہ بندی میں سر فہرست رہنے کا تاج انگلستان کو سونپ کر ہندوستان کا دستہ ذلت، رسوائی اور شرم کا تاج لئے سوئے وطن روانہ ہوا۔ اس ہزیمت کا دُکھ اس خوشی سے کہیں زیادہ تھا جو عالمی کپ جیتنے کے بعد حاصل ہوئی تھی۔
یہی وہ لمحہ تھا جب بھارتی کرکٹ بورڈ خواب غفلت سے بیدار ہوتا ہوا نظر آیا۔ پرانی حکمت عملی کا جائزہ لے کر اسے نیا جامہ پہنایا گیا۔ گو کہ ٹھیک ایک مہینے بعد بھارت نے انگلستان کو ایک روزہ میچوں کی سیریز میں اپنی زمین پر اسی طرح جیت کے لئے ترسایا، جس طرح انگریزوں نے انہیں کیا تھا، لیکن انگلستان میں ملنے ولا زخم ایسا تھا جو مندمل ہوتے نہیں ہوا۔
سال کے اختتامی ایام بھارتی ٹیم کے لئے اس لحاظ سے اچھے رہے کہ اسے ویسٹ انڈیز جیسی قدرے کمزور ٹیم سے گھریلو میدانوں پر کھیلنے کا موقع ملا۔ ٹیسٹ اور ایک روزہ دونوں سیریزوں میں میزبانوں نے مہمانوں کی خوب خبر لی ۔ اس طرح ٹیم انڈیا ویسٹ انڈیز کو شاندارطریقے سے زیر کرنے میں کامیاب رہی۔
البتہ بحیثیت مجموعی ٹیسٹ میں بھارت کی کارکردگی مایوس کن رہی جس کا اظہار مندرجہ ذیل جدول سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔
سال 2011ء کارکردگی کے لحاظ سے ٹیسٹ ممالک کی فہرست
ملک | مقابلے | جیتے | ہارے | برابر | ڈرا | فتوحات کا تناسب |
---|---|---|---|---|---|---|
8 | 6 | 0 | 0 | 2 | 75.00 فیصد | |
10 | 6 | 1 | 0 | 3 | 60.00 فیصد | |
4 | 2 | 1 | 0 | 1 | 50.00 فیصد | |
5 | 2 | 2 | 0 | 1 | 40.00 فیصد | |
8 | 3 | 3 | 0 | 2 | 37.50 فیصد | |
3 | 1 | 2 | 0 | 0 | 33.33 فیصد | |
11 | 3 | 4 | 0 | 4 | 27.27 فیصد | |
10 | 2 | 4 | 0 | 4 | 20.00 فیصد | |
10 | 0 | 4 | 0 | 6 | 0.00 فیصد | |
5 | 0 | 4 | 0 | 1 | 0.00 فیصد |
البتہ ایک روزہ میں بھارت کی کارکردگی بہت عمدہ رہی جس کے ثبوت کے لیے عالمی کپ جیتنا ہی کافی ہے۔ واحد داغ اسی دورۂ انگلستان کا ہے جہاں اسے ایک بھی میچ نہ جیتنے دیا گیا۔ آئیے اس جدول کے ذریعے بھارت اور دیگر ٹیموں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔
سال 2011ء کارکردگی کے لحاظ سے ایک روزہ ممالک کی فہرست
ملک | مقابلے | جیتے | ہارے | برابر | بے نتیجہ | کمترین/بہترین اسکور |
---|---|---|---|---|---|---|
32 | 24 | 7 | 0 | 1 | 317/124 | |
34 | 21 | 10 | 2 | 1 | 418/146 | |
25 | 18 | 6 | 0 | 1 | 361/176 | |
28 | 14 | 12 | 0 | 2 | 332/121 | |
30 | 11 | 16 | 2 | 1 | 338/171 | |
28 | 10 | 17 | 0 | 1 | 330/61 | |
17 | 9 | 7 | 0 | 1 | 358/153 | |
15 | 9 | 6 | 0 | 0 | 351/129 | |
20 | 6 | 14 | 0 | 0 | 295/58 | |
17 | 6 | 11 | 0 | 0 | 329/160 | |
12 | 4 | 8 | 0 | 0 | 329/96 | |
4 | 3 | 1 | 0 | 0 | 323/101 | |
2 | 2 | 0 | 0 | 0 | 213/150 | |
10 | 2 | 8 | 0 | 0 | 306/115 | |
10 | 1 | 9 | 0 | 0 | 261/122 | |
8 | 0 | 8 | 0 | 0 | 264/99 |
بھارتی کرکٹ ٹیم ایک دفعہ پھر بیرون ملک میں اپنی قسمت آزمائی کرنے کو تیار ہو چکی ہے۔ سال 2012ء کا آغاز آسٹریلیا جیسے سخت حریف کی سرزمین پر ٹیسٹ اور ایک روزہ مقابلوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جہاں اب تک بھارت نے ایک بھی ٹیسٹ سیریز نہیں جیتی ہے۔وہیں اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ یہ سچن ٹندولکر، راہول ڈریوڈ اور وی وی ایس لکشمن کا آخری دورۂ آسٹریلیا ہو۔ مہندر سنگھ دھونی کی قیادت میں اگر ٹیم انڈیا آسٹریلیا کو ٹیسٹ سیریز میں زیر کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو جہاں ایک طرف یہ آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتنے کی ہیٹ ٹرک ہوگی، وہیں کپتان دھونی آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں ہی شکست دینے والے بھارت کے پہلے کپتان بن جائیں گے اور ساتھ ہی سال2012ء کا یہ ایک شاندار آغاز ہوگا۔
سال 2011ء کی اس داستان کا اختتام ادھورا رہ جائے گا اگر اندور میں کھیلے گئے ویسٹ انڈیز کے خلاف چوتھے میچ کا ذکر نہ کیا جائے۔ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں جہاں 153رنوں کی عظیم فتح کے ساتھ ہی بھارت نے سال کی آخری سیریز اپنے نام کی وہیں’بے رحم‘ بلے باز وریندر سہواگ نے سچن کے ایک روزہ میچوں میں سب سے زیادہ انفرادی رنز بنانے کے ریکار ڈ کو توڑ کر اپنی پہلی ڈبل سنچری مکمل کی۔
ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ کی یہ محض دوسری ڈبل سنچری اور طویل ترین اننگز تھی جو صرف 140گیندوں پر 219 رنوں کی کھیلی گئی یہ اننگ نہ صرف سال 2011ء کی بہترین اننگز تھی بلکہ کرکٹ کی تاریخ میں بھی اسے انفرادی لحاظ سے بھی ممتاز حیثیت حاصل رہے گی۔
دوسری جانب سچن ٹنڈولکر نے اِس سال اپنے کرکٹ کیریئر کی99ویں سنچری مکمل تو کر لی لیکن ان کی 100ویں سنچری کے انتظار میں یہ سال بھی ختم ہونے کو ہے اور اُن کے مداحوں کا صبر آزما امتحان ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا۔
(آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ سے قبل) ٹیسٹ میچوں میں راہول دراوڈ اس سال بھارت کی طرف سے سب سے زیادہ رن بنانے والے بلے باز رہے۔ انہوں نے 11 میچوں کی 21 اننگز میں 59.27 کی اوسط سے1067 رنز بنائے۔ جس میں 5 سنچریاں اور 3 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ وہیں وی وی ایس لکشمن 770 اور سچن ٹنڈولکر 651 رنوں کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔
سال 2011ء ٹیسٹ کے بہترین بلے باز
نام | ملک | مقابلے | اننگز | رنز | بہترین اسکور | اوسط | سنچریاں | نصف سنچریاں |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|
راہول ڈریوڈ | 11 | 21 | 1067 | 146* | 59.27 | 5 | 3 | |
این بیل | 8 | 11 | 950 | 235 | 118.75 | 5 | 2 | |
ڈیرن براوو | 10 | 20 | 949 | 195 | 49.94 | 3 | 3 | |
ایلسٹر کک | 8 | 11 | 927 | 294 | 84.27 | 4 | 2 | |
کمار سنگاکارا | 10 | 19 | 926 | 211 | 48.73 | 3 | 4 | |
توفیق عمر | 10 | 19 | 831 | 236 | 46.16 | 3 | 3 | |
وی وی ایس لکشمن | 11 | 21 | 770 | 176* | 45.29 | 1 | 6 | |
یونس خان | 8 | 12 | 765 | 200* | 85.00 | 2 | 4 | |
مصباح الحق | 10 | 16 | 765 | 102* | 69.54 | 1 | 7 | |
اظہر علی | 10 | 18 | 732 | 100 | 45.75 | 1 | 7 |
ایشانت شرما 11 میچوں کی 20 اننگز میں 41 وکٹوں کے ساتھ بھارت کی جانب سے کامیاب ترین گیند باز ثابت ہوئے۔ پروین کمار 6 میچوں کی 17 اننگز میں 27 اور روی چندر آشوِن 3 میچوں کی 6 اننگز میں 22 وکٹوں کے ساتھ اس فہرست میں دوسرے اور تیسرے مقام پر رہے۔
سال 2011ء ٹیسٹ کے بہترین گیند باز
نام | ملک | مقابلے | اوورز | میڈنز | رنز | وکٹیں | بہترین گیند بازی/اننگز | بہترین گیند بازی/میچ | اوسط |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سعید اجمل | 8 | 487.0 | 112 | 1193 | 50 | 6/42 | 11/111 | 23.86 | |
ایشانت شرما | 11 | 451.2 | 93 | 1487 | 41 | 6/55 | 10/108 | 36.26 | |
دیوندر بشو | 10 | 454.4 | 65 | 1413 | 39 | 5/90 | 8/152 | 36.3 | |
عبد الرحمن | 8 | 412.0 | 116 | 946 | 36 | 4/51 | 7/97 | 26.27 | |
جیمز اینڈرسن | 7 | 296.2 | 77 | 870 | 35 | 5/65 | 7/127 | 24.85 | |
عمر گل | 8 | 287.5 | 47 | 873 | 34 | 4/61 | 8/148 | 25.67 | |
اسٹورٹ براڈ | 7 | 270.2 | 63 | 736 | 33 | 6/46 | 8/76 | 22.30 | |
فیڈل ایڈورڈز | 8 | 252.2 | 22 | 957 | 32 | 5/63 | 8/132 | 29.90 | |
رنگانا ہیراتھ | 9 | 419.4 | 87 | 1064 | 32 | 7/157 | 8/133 | 33.25 | |
روی رامپال | 8 | 283.1 | 55 | 776 | 31 | 4/48 | 7/75 | 25.03 |
ایک روزہ مقابلوں میں 34میچوں میں 47.62کی اوسط سے1381رنوں کے ساتھ ویرات کوہلی کا نام دنیا بھر کے بلے بازوں سرفہرست ہے۔ جس میں اُن کی 4 سنچریاں اور 8 نصف سنچریاں شامل تھیں۔کپتان مہندر سنگھ دھونی 24 میچوں میں 58.76 کی اوسط سے 764 رنوں کے ساتھ اور سریش رائنا 29 میچوں میں 31.39 کی اوسط سے 722 رنوں کے ساتھ دوسرے اور تیسرے مقام پر رہے۔
سال 2011ء ایک روزہ کے بہترین بلے باز
نام | ملک | مقابلے | اننگز | رنز | بہترین اسکور | اوسط | سنچریاں | نصف سنچریاں |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|
ویرات کوہلی | 34 | 34 | 1381 | 117 | 47.62 | 4 | 8 | |
جوناتھن ٹراٹ | 29 | 28 | 1315 | 137 | 52.60 | 2 | 10 | |
شین واٹسن | 23 | 22 | 1139 | 185* | 56.95 | 2 | 8 | |
کمار سنگاکارا | 27 | 25 | 1127 | 111 | 51.22 | 1 | 9 | |
محمد حفیظ | 32 | 32 | 1075 | 139* | 37.06 | 3 | 5 | |
مہیلا جےوردھنے | 27 | 24 | 1032 | 144 | 46.90 | 3 | 7 | |
مصباح الحق | 31 | 26 | 964 | 93* | 53.55 | 0 | 9 | |
مائیکل کلارک | 24 | 22 | 900 | 101 | 56.25 | 1 | 6 | |
اوپل تھارنگا | 22 | 21 | 826 | 133 | 45.88 | 4 | 2 | |
تلکارتنے دلشان | 28 | 27 | 820 | 144 | 31.53 | 2 | 4 |
گیند بازی میں مناف پٹیل 21 میچوں میں 32 وکٹوں کے ساتھ کامیاب ترین گیند باز رہے۔ جبکہ ظہیر خان 14 میچوں میں 30 وکٹوں اور آشون 18 میچوں میں 25 وکٹوں کے ساتھ دوسرے اور تیسرے مقام پر رہے۔
سال 2011ء ایک روزہ کے بہترین گیند باز
نام | ملک | مقابلے | اوورز | میڈنز | رنز | وکٹیں | رنز فی اوور | بہترین گیند بازی | اوسط |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
لاستھ مالنگا | 24 | 192.1 | 12 | 924 | 48 | 4.80 | 6/38 | 19.25 | |
شاہد آفریدی | 27 | 224.0 | 9 | 937 | 45 | 4.18 | 5/16 | 20.82 | |
مچل جانسن | 22 | 184.1 | 10 | 817 | 39 | 4.43 | 6/31 | 20.94 | |
سعید اجمل | 20 | 166.4 | 17 | 581 | 34 | 3.48 | 4/35 | 17.08 | |
بریٹ لی | 19 | 156.1 | 10 | 717 | 33 | 4.59 | 4/15 | 21.72 | |
محمد حفیظ | 32 | 229.0 | 15 | 811 | 32 | 3.54 | 3/27 | 25.34 | |
مناف پٹیل | 21 | 163.3 | 8 | 879 | 32 | 5.37 | 4/29 | 27.46 | |
ٹم بریسنن | 24 | 210.2 | 10 | 1136 | 32 | 5.40 | 5/48 | 35.50 | |
گریم سوان | 21 | 192.0 | 11 | 853 | 31 | 4.44 | 3/18 | 27.51 | |
ظہیر خان | 14 | 12.75 | 6 | 620 | 30 | 4.85 | 3/20 | 20.66 |
بھارت نے اس سال 4 ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کی جس کے ابتدائی دو میچوں میں اس نے جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کو زیر کیا ۔ وہیں آخری دو میچوں میں اسے انگلستان کے ہاتھوں شکست ہوئی۔دورۂ انگلستان کے ڈراؤنے خواب کو اگر چھوڑ دیا جائے تو یہ سال بھارتی کرکٹ کی تاریخ کا ایک کامیاب ترین اور یادگار سال ثابت ہوا۔عالمی کپ کی فتح اورسہواگ کی جارحانہ اننگز اس سال پیش آنے والے بھارتی کرکٹ کے یادگار لمحے رہے جنہیں یقیناً کرکٹ تاریخ کے صفحات پر سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔
کارکردگی سے ہٹ کر بھارت کو رواں سال ایک عظیم ہستی کی جدائی کا غم بھی سہنا پڑا۔ جی ہاں، عظیم کھلاڑی اور عظیم قائد منصور علی خان پٹودی ماہِ ستمبر میں چل بسے۔
بحیثیت مجموعی یہ سال بھارت کے لیے انتہائی یادگار رہا اور اب اس کا امتحان آسٹریلیا میں جاری ٹیسٹ سیریز میں میزبان ٹیم کو زیر کر کے نئی تاریخ رقم کرنا ہے اور اگر مہندر سنگھ دھونی اپنے تاج میں یہ ہیرا بھی لگانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ بلاشبہ بھارت کی تاریخ کے سب سے عظیم کپتان بن جائیں گے۔
Comments
Post a Comment