Skip to main content
کس میں کتنا ہے دم؟ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں ٹیموں کا جائزہ
پانچ سال قبل تک دنیائے کرکٹ کے لیے صرف ایک ہی عالمی اعزاز
تھا، ‘ایک روزہ عالمی کپ’۔ اس میں فتح حاصل کرنے والی ٹیم بلاشرکت غیرے،
اور ٹیسٹ میں کارکردگی سے قطع نظر، دنیائے کرکٹ کی حکمران کہلاتی تھی لیکن
2007 میں یہ منظرنامہ تبدیل ہوا اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے بیس اوورز
کی جدید طرز کرکٹ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے عالمی ٹورنامنٹ ‘ورلڈ ٹی
ٹوئنٹی’ کا آغاز کیا۔اس دلچسپ ٹورنامنٹ کی فاتح ٹیم ٹی ٹوئنٹی عالمی چیمپئن کہلائی اور اس
امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مختصر ترین دورانیے کی اس کرکٹ نے چہار سو تہلکہ
مچا دیا۔جنوبی افریقہ میں کھیلا گیا پہلا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2007 ہی مقبولیت کے تمام ریکارڈز توڑ گیا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا؟
آخر کو روایتی حریف پاکستان اور ہندوستان فائنل میں مدمقابل جو تھے۔
اعصاب شکن معرکہ آرائی کے بعد ہندوستان پہلا ٹی ٹوئنٹی عالمی چیمپئن قرار
پایا اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔دو ہزار نو میں انگلش سرزمین پر پاکستان اور پھر 2010 میں کیریبین جزائر
میں ہونے والے تیسرے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں انگلستان نے میدان مارا۔اب اپنی طرز کا چوتھا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سر پر آن کھڑاہے۔ 18 ستمبر سے بحر
ہند کے خوبصورت جزیرے سری لنکا میں دنیا کی بارہ بہترین ٹیمیں آمنے سامنے
ہوں گی۔تقریباً تمام ہی ٹیمیں سرزمین لنکا پہنچ چکی ہیں بلکہ چند تو لہو گرم رکھنے کو بے ضابطہ مقابلے بھی کھیل چکی ہیں۔لیکن ایک سوال جو اس وقت دنیا بھر کے کرکٹ کے چاہنے والوں کے ذہن میں
گردش کر رہا ہے کہ اس مرتبہ آخر کون ہوگا جو ٹی ٹوئنٹی کی عالمی بادشاہت کا
تاج اپنے سر پر رکھے گا؟دفاعی چیمپئن انگلستان یا ایک روزہ کا عالمی فاتح ہندوستان؟ میزبان سری لنکا یا ناقابل یقین پاکستان؟مشکل دور سےگزرنے والا آسٹریلیا یا ہمیشہ فیورٹ رہنے والا جنوبی افریقہ؟
یا پھر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی خطرناک قوت ویسٹ انڈیز یا غیر متوقع نیوزی لینڈ؟حقیقت یہ ہے کہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ٹی ٹوئنٹی محض بیس اوورز کا
کھیل ہے اور ٹیسٹ اور ایک روزہ کے برخلاف یہاں ایک اوور کا کھیل بھی
مقابلے کا رخ بدل سکتا ہے۔اسی وجہ سے ٹی ٹوئنٹی میں ٹیموں کے درمیان فرق بہت کم رہ جاتا ہے اور ‘اپ سیٹ’ ہونے کے امکانات کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ بالا آٹھوں ٹیموں کے سپر 8 مرحلے میں
پہنچنے کے امکانات زیادہ ہیں، جس کے بعد ہی حقیقی ٹاکرا شروع ہوگا۔چند ٹیموں کو ہم بغور جائزہ لیتے ہیں اور اس مرتبہ جو ٹیم سب سے زیادہ
خطرناک سمجھی جا رہی ہے، حالانکہ اس میں حقیقت کم اور توقعات زیادہ ہیں،
ویسٹ انڈیز ہے۔گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے رو بہ زوال جزائر غرب الہند کی ٹیم ٹیسٹ
اور ایک روزہ کی عالمی درجہ بندیوں میں بالکل آخری نمبروں پر ہے لیکن اس کے
باوجود ٹی ٹوئنٹی میں کرس گیل اور کیرون پولارڈ جیسے قوی ہیکل بلے بازوں،
ڈیوین براوو، آندرے رسل اور کپتان ڈیرن سیمی جیسے آل راؤنڈرز کی موجودگی
میں ویسٹ انڈیز کو ‘چھپا رستم’ کہا جا رہا ہے۔اگر ٹیم کے تمام ستون ثابت قدمی سے جمع رہے تو کوئی شبہ نہیں کہ ویسٹ
انڈیز کو سرکرنا ناممکنات میں سے ہوگا لیکن اس جملے سے قبل “اگر” کو کچھ
بڑا کر لیا جائے تو بہتر ہوگا۔اب رخ کرتے ہیں میزبان ٹیم کی طرف، جسے ایک جانب اپنے میدانوں، مانوس
کنڈیشنز اور حامی تماشائیوں کا ساتھ تو حاصل ہوگا ہی لیکن بايں ہمہ دنیائے
کرکٹ کے دو کمال کے آل راؤنڈرز کی رفاقت بھی میسر ہوگی یعنی اینجلو میتھیوز
اور تھیسارا پیریرا۔ان دونوں کھلاڑیوں نے گزشتہ ایک سال کے اندر جس طرح کی کارکردگی پیش کی
ہے اور ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کیا ہے، اس سے سری لنکا کے ٹورنامنٹ جیتنے
کی قوی امیدیں ہیں۔تجربہ کار لاستھ مالنگا، تلکارتنے دلشان اور کمار سنگاکارا تو کسی تعارف
کے محتاج ہی نہیں اور اگر ان کا تال میل چل پڑا تو گویا لنکا کی گاڑی آخری
اسٹاپ یعنی فائنل تک جا کر ہی دم لے گی۔اب ایک نظر آبنائے پالک کے اُس پار سرزمینِ ہند کے سورماؤں پر ڈالی
جائے، جن کا ایک ‘یودھا’ تو ایسا ہے جس کے نام سے اس وقت دنیا بھر کے
باؤلرز کانپ رہے ہیں، جی ہاں! ویرات کوہلی۔محض 23 سال کا یہ بلے باز اپنے مختصر سے کیریئر میں دنیا بھر پر ثابت کر
چکا ہے کہ مستقبل قریب میں کھیل کے کئی ریکارڈز اس کی گرفت میں ہوں گے۔کوہلی کا کمال یہ ہے کہ نہ صرف وہ حریف گیند بازوں اور ٹیم کے حواس پر
حاوی ہو جاتے ہیں بلکہ ماضی کے ‘بدنام زمانہ’ بلے بازوں کے مقابلے میں
انفرادی ریکارڈز کے لیے نہیں بلکہ ٹیم کی جیت کے لیے کھیلتے ہیں اور ایک
مرتبہ پھر ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بننے کے لیے ہندوستان کو یہی جذبہ
درکار ہے۔پھر ایک خطرہ، جسے بہت کم لوگ محسوس کر رہے ہیں، عرفان پٹھان کی واپسی ہے۔عرفان نے اپنی واپسی کے بعد نہ صرف گھر میں بلکہ بیرون ملک بھی گیند
بازی اور بلے بازی دونوں میں اہلیت ثابت کی اور سری لنکا کے خلاف ہونے والے
وارم اپ مقابلے میں انہی کی پانچ وکٹیں حاصل کرنے کی کارکردگی نے ہندوستان
کو فتح سے ہمکنار کیا۔اس لیے اندازہ ہے کہ اس مرتبہ عرفان پٹھان کا کردار بھی کلیدی رہے گا۔علاوہ ازیں تجربہ کار ‘ماسٹر بلاسٹر’ وریندر سہواگ کے ساتھ سرطان کو
شکست دے کر ٹیم میں واپس جگہ پانے والے یووراج سنگھ اور انڈین پریمیئر لیگ
کی دریافت منوج تیواری بھی اہم ہوں گے۔اگر سری لنکا میں وکٹوں نے روایتی طور پر اسپنرز کو مدد دی تو ہندوستان خطرناک ترین ہتھیاروں سے لیس ہے۔تجربہ کار ہربھجن سنگھ کے علاوہ روی چندر آشون بھی کارآمد ثابت ہوں گے۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کے پاس وہ بہترین کمبی نیشن موجود ہے جو
کسی بھی ٹیم کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتنے کے لیے درکار ہے۔اب ایک نظر پاکستان پر، دنیا کی واحد ٹیم جس کے بارے میں کوئی بھی پیش
گوئی نہیں کر سکتا۔ یہ ایک دن عرش پر ہو سکتی ہے تو دوسرے دن فرش پر۔جیسا کہ آسٹریلیا کے خلاف حالیہ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں دیکھا گیا۔ پہلے ٹی
ٹوئنٹی میں آسٹریلیا کو صرف 89 پر ڈھیر کر دینے والا پاکستان دوسرے مقابلے
میں 152 رنزکا دفاع بھی نہ کر پایا اور مقابلہ ‘خدا خدا کر کے’ برابری کی
بنیاد پر ختم ہوا اور ‘سپر اوور’ میں فتح حاصل کر کے سیریز تو اپنے حق میں
سمیٹ لی لیکن دو مقابلوں کی فتح کا نشہ آخری میچ میں نہ اترنے کا خمیازہ
تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں ذلت آمیز شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔کارکردگی میں اس درجے کا عدم تسلسل پاکستان کے لیے ہر گز خوش آئند امر
نہیں اور یہی بات قومی کرکٹ ٹیم کو سپر 8 مرحلے سے باہر کر سکتی ہے۔گو کہ پاکستان میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے مضبوط امیدوار ہونے کے تمام عناصر
بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن ایک عالمی ٹورنامنٹ کارکردگی میں تسلسل سے جیتا
جا سکتا ہے جو بہرحال پاکستان کو لانا ہوگا بصورت دیگر واپسی کا ٹکٹ پکڑنا
ہو گا۔پھر بھی پاکستان کے تمام شائقین چاہیں گے کہ قومی کرکٹ ٹیم 2009 کی
کارکردگی دہرائے اور ویسٹ انڈین سرزمین پر مائیکل ہسی کے ہاتھوں چھینا گیا
اعزاز دوبارہ حاصل کرے۔دفاعی چیمپئن انگلستان، جو اپنے میدانوں میں جنوبی افریقہ کے خلاف حالیہ
سیریز بمشکل برابر کر پایا ہے، کی کمزور کڑی صرف ایک ہے، ان کا کپتان
اسٹورٹ براڈ! پھر بھی ٹیم میں ایون مورگن جیسا مرد بحران، اسٹیون فن اور
جیڈ ڈرنباخ جیسے اچھے باؤلرز اور سمیت پٹیل اور روی بوپارا جیسے کارآمد آل
راؤنڈرز موجود ہیں، جن کی موجودگی میں کوئی ‘بدشگونی’ والی بات نہیں کرنی
چاہیے۔پھر جنوبی افریقہ کے خلاف حالیہ ٹی ٹوئنٹی میں جوس بٹلر نے جس طرح
مقابلے کو تن تنہا پلٹا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگلستان عالمی
ٹورنامنٹ میں دیگر ٹیموں کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔اگر اسٹورٹ براڈ بروقت بہترین فیصلے کرنے میں کامیاب ہو گئے تو انگلستان اعزاز کا کامیابی سے دفاع بھی کرسکتا ہے۔جنوبی افریقہ، نسل پرستانہ عہد گزارنے کے بعد تقریباً دو دہائیوں سے دنیائے کرکٹ میں موجود ہے اور ہمیشہ ہی ایک جامع ٹیم رہا ہے۔ہمیشہ اپنے وقت کے بہترین بلے باز، گیند باز، آل راؤنڈرز اور فیلڈرز اس
ٹیم کا حصہ رہے ہیں اور اس مرتبہ بھی یہ ایک مکمل ترین ٹیم ہے۔بس اس کے پاس ایک عنصر کی کمی ہے “قسمت” کی۔ اگر یہ یاوری کر جائے تو
گویا کی کشتی پار لگ جائے اور وہ بالآخر کوئی عالمی سطح کا ٹورنامنٹ جیت
جائے۔ڈیل اسٹین، ابراہم ڈی ولیئرز، ہاشم آملہ اور ژاک کیلس جیسے کھلاڑیوں کی
موجودگی میں اگر کوئی ٹیم کوئی ٹورنامنٹ نہ جیت سکے تو اسے بدقسمتی ہی کہا
جا سکتا ہے۔بہرحال، جنوبی افریقہ اتنا ہی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتنے کے لیے فیورٹ ہے جتنا کہ ہندوستان اور سری لنکا۔نیوزی لینڈ کو چند روز قبل تک کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا لیکن چنئی
میں روس ٹیلر الیون نے ہندوستان کو جس طرح اعصاب شکن معرکے کے بعد زیر کیا
ہے، اس نے خطرے کی گھنٹی ضرور بجا دی ہے، خصوصاً پاکستان کے لیے کیونکہ
نیوزی لینڈ اسی کے گروپ میں ہے۔مذکورہ مقابلے میں ایک تو عرصہ بعد برینڈن میک کولم کی فارم میں واپسی
ہوئی ہے، وہیں اس نے میچ کے انتہائی سنسنی خیز مرحلے پر بھی دباؤ کو برداشت
کیا اور بالآخر ایک رن کی فتح سمیٹ کر سیریز میں ہندوستان کو غیر متوقع
طور پر شکست دی۔گو کہ صرف ایک میچ کی بنیاد پر نیوزی لینڈ کو عالمی اعزاز کے لیے ایک
بڑا حریف قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ایسی ہی
کارکردگی نیوزی لینڈ سپر 8 کے کسی اہم میچ یا سیمی فائنل میں بھی دہرا سکتا
ہے اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔اب آخر میں بات کرتے ہیں ماضی کے ‘عظیم و برتر’ آسٹریلیا کی، جو بہت
تیزی سے روبہ زوال ہے۔ اسے پے در پے شکستیں سہنا پڑ رہی ہیں لیکن پھر بھی
ایک پیشہ ورانہ ٹیم کی طرح وہ بسا اوقات ایسا جم جاتا ہے کہ دنیا کی بہترین
ٹیمیں بھی اس کے سامنے ‘بھیگی بلی’ نظر آتی ہیں۔ کچھ ایسی صورتحال پاکستان
کے خلاف حالیہ سیریز میں ہوئی۔اولین ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں مایوس کن شکست کے بعد جس طرح دوسرے مقابلے
میں اس نے قدم جمائے اور پھر تیسرے میں پاکستان کو چاروں شانے چت کیا، اس
نے ثابت کیا ہے کہ آسٹریلیا کو بیک جنبش قلم رد کر دینے والے کتنی بڑی غلطی
پر ہیں۔کپتان جارج بیلے کے علاوہ جس آسٹریلوی کھلاڑی سے تمام ٹیموں کو سب سے
زیادہ خبردار رہنا ہوگا وہ آل راؤنڈر شین واٹسن ہیں۔ اگر ان کا بلا چل گیا
تو باؤلرز کو کہیں جائے پناہ نہیں ملے گی۔ پھر ڈیوڈ وارنر، مچل اسٹارک اور
مرد بحران مائیکل ہسی بھی اسی ٹیم کاحصہ ہیں۔اس لیے اپنے دن پر یہ ٹیم کسی بھی حریف پر قابو پا سکتی ہے اور میری
ذاتی رائے میں پاکستان اور انگلستان سے کہیں زیادہ مضبوط حریف ہوگی۔اس کے علاوہ بنگلہ دیش، آئرلینڈ اور زمبابوے حتیٰ کہ افغانستان بھی اپ
سیٹ کرنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اس کی تاریخ بھی
رکھتا ہے۔ماضی میں نیدرلینڈز، انگلستان جیسی ٹیم کو اسی کے میدانوں پر ہرا چکا ہے
جبکہ بنگلہ دیش اپنے سے کئی گنا بڑی قوت ہندوستان کو زیر کر چکا ہے۔ اس
لیے ہر ٹیم کو ہر مقابلہ بڑی منصوبہ بندی اور توجہ کے ساتھ کھیلنا ہوگا اور
جو ٹیم ہمہ وقت اپنے اعصاب کو قابو میں رکھے گی وہ 7 اکتوبر کو کولمبو کو
پریماداسا اسٹیڈیم میں مدمقابل دو ملکوں میں سے ایک ہوگی۔
Comments
Post a Comment