Skip to main content
’فیڈریشن برطرف کرکے ایڈہاک لگائی جائے‘
پاکستان کے سابق ہاکی اولمپئنز کا کہنا ہے کہ پاکستانی
ہاکی کو اصل خطرہ موجودہ فیڈریشن سے ہے جس کے ہوتے ہوئے قومی ٹیم متواتر
شرمناک کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔سابق ہاکی اولمپئنز کے بقول ہاکی کی بقاء اسی میں ہے کہ حکومت موجودہ فیڈریشن کو برطرف کرکے ایڈہاک کمیٹی کا تقرر کر دے۔کراچی پریس کلب کے پروگرام میٹ دی پریس میں جمعہ کے روز اظہارخیال کرنے
والے سابق کھلاڑیوں میں اصلاح الدین، شہناز شیخ، قمرضیا، رشید الحسن،
اخترالاسلام، ایاز محمود، قمرابراہیم، کامران اشرف، وسیم فیروز، صفدرعباس
اور سمیرحسین شامل تھے۔بی بی سی کے نامہ نگار عبدالرشید شکور کے مطابق
اصلاح الدین نے کہا کہ وہ صدر اور وزیراعظم سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتے ہیں
کہ وہ پاکستانی ہاکی کو تباہی سے بچائیں۔’اس وقت پاکستانی ہاکی کی باگ ڈور تین ہاتھوں میں
ہے جو اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ میرٹ کی بنیاد پر ایسے
لوگوں کا تقرر کیا جائے جو پاکستانی ہاکی کو دوبارہ جیت کی راہ پر گامزن کر
سکیں۔انہوں نے کہا کہ سابق اولمپئنز صدر اور وزیراعظم سے ملاقات کرکے انہیں حقائق سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔اصلاح الدین نے کہا کہ جب یہ فیڈریشن آئی تھی تو
پاکستان نے بیجنگ اولمپکس میں آٹھویں پوزیشن حاصل کی تھی اور اس کی عالمی
رینکنگ چھٹی تھی اور اب لندن اولمپکس میں ٹیم ساتویں نمبر پر آئی ہے جبکہ
اس کی عالمی رینکنگ گر کر نویں ہو چکی ہے۔شہناز شیخ نے کہا کہ حکومت نے اس فیڈریشن کو سب سے زیادہ پیسہ دیا لیکن
یہ فیڈریشن اکیڈمیوں کے نام پر اور ٹیم کی تیاری کے نام پرقوم کو دھوکہ
دیتی آئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر فیڈریشن کی یہ بات مان لی
جائے کہ اس نے اکیڈمیوں کے ذریعے ٹیلنٹ تیار کیا ہے تو پھر ٹیم میں بڑی عمر
والے ریحان بٹ شکیل عباسی اور محمد وسیم کے متبادل کیوں سامنے نہیں لائے
جا سکے اور انہی سینیئر پر کیوں انحصار کیا جاتا رہا۔شہناز شیخ نے کہا کہ عالمی کپ میں ٹیم کے بارہویں
نمبر پر آنے کے بعد بھی سابق اولمپئنز نے حکومت سے ہاکی کے معاملات سدھارنے
کے لیے کہا تھا اگر اس وقت ان کی بات مان لی جاتی تو آج پاکستانی ہاکی کو
یہ دن دیکھنے نہیں پڑتے۔رشید الحسن نے کہا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن بھارت
کے خلاف سیریز کی بات کر رہی ہے جو صرف پبلک شو ہوگا اس کا ٹیم کو کوئی
فائدہ نہیں ہوگا۔سابق اولمپئنز کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے انہیں
ملاقات کے لیے وقت نہ دیا تو وہ تین ہفتے بعد پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہوکر
اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔
Comments
Post a Comment