پا کستا ن کے بغیر پہلا
ورلڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ
ع۔اسجد
تیرہواں ورلڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ ہالینڈ میں شروع ہو چکا ہے۔اس ٹورنامنٹ میں دنیا بھر سے12ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔جن کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔گروپ’’اے‘‘ میں دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کے علاوہ ملائیشیا، بلجیم،بھارت، انگلینڈ اور سپین کی ٹیمیں شامل ہیں جبکہ گروپ’’بی‘‘ میں میزبان ہالینڈ کے علاوہ جرمنی، جنوبی افریقہ، ارجنٹائن،نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا کی ٹیموں کو رکھا گیا ہے۔ٹورنامنٹ کا فائنل15جون کو کھیلا جائے گا۔
ورلڈ کپ کے مقابلے کیوکیرا ہاکی سٹیڈیم اور گرین فیلڈز ہاکی سٹیڈیم میں کھیلے جا رہے ہیں۔ورلڈ کپ ہاکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کی ٹیم عالمی مقابلوں میں حصہ نہیں لے رہی ہے اس کی کوئی سیاسی یا تعصبانہ وجوع نہیں بلکہ نا اہلی کی وجہ سے ٹیم ان مقابلوں کیلئے کوالیفائی ہی نہیں کر سکی۔ایشیا سے بھارت، ملائیشیا اور جنوبی کوریا کی ٹیموں نے عالمی مقابلوں میں جگہ بنائی۔جس کا یقیناً پاکستان ہاکی فیڈریشن کے عہدیداروں کو افسوس ضرور ہو گا کیونکہ اس سے ان کا اور ان کی فیملی کا ایک ٹور ضائع چلا گیا ہے۔لیکن پوری قوم کو اس پر شدید دکھ بھی ہے اور غم و غصہ بھی ہے کیونکہ وہ قومی کھیل ہاکی کو بے حد پسند کرتے ہیں۔فیڈریشن کے عہدیدار بھی ہاکی کے کھیل سے محبت کرتے ہیں لیکن ان کی محبت میں پیسے بھی شامل ہیں۔اگرصرف محبت ہوتی تو آج پاکستان کی ہاکی ٹیم ہالینڈ میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ مقابلوں میں حصہ لے رہی ہوتی،بہرحال یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 13واں ورلڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ پاکستانی ٹیم کے بغیر ہالینڈ میں شروع ہوچکا ہے۔قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی اسلام آباد کے نصیر بندہ ہاکی سٹیڈیم میں ہیڈ کوچ شہناز شیخ کی منشا کے مطابق تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
ماضی میں پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم چار مرتبہ ورلڈ کپ کی ٹرافی اپنے نام کر چکی ہے۔1971ء میں سپین کے شہر بارسلونا میں ہونے والے عالمی کپ میں پاکستان نے کامیابی کے جھنڈے گاڑھے۔فائنل میں پاکستان نے میزبان سپین کو1-0سے شکست دیکر قومی پرچم دیار غیر میں بلند کیا۔دوسری مرتبہ پاکستان کو یہ اعزاز1978ء میں حاصل ہوا جب ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں ہونے والے مقابلوں میں کامیابی حاصل کی فائنل میں پاکستان نے ہالینڈ کو3-2ہرا کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔1982ء بھارت کے شہر بمبئی(موجودہ نام ممبئی) میں ہونے والے عالمی کپ کے فائنل میں مغربی جرمنی (اس وقت جرمنی دو حصوں میں منقسم تھی)کو3-1سے شکست دیکر ٹیم سرخرو ہوئی۔جبکہ آخری مرتبہ دنیا ہاکی کے عظیم کھلاڑی محمد شہبازاحمد سنیئر کی قیادت میں پاکستان کو 1994ء میں فتح نصیب ہوئی۔آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہونے والے مقابلوں کے فائنل میں ہالینڈ کو پنلٹی سٹروکس پر3-4 سے زیر کرکے پاکستان چیمپئن بنا اور قومی پرچم سر بلند کیا۔آج20 سال بعد چار مرتبہ کی عالمی چیمپئن مقابلوں سے خارج ہے۔
قومی کھیل ہاکی کیلئے شائد صدمات شروع ہو چکے ہیں۔پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن (پی او اے) کی لڑائی کی بدولت پاکستان کی ہاکی ٹیم کا کامن ویلتھ گیمز میں بھی شرکت سے ہاتھ دھو چکی ہے۔جو رواں سال سکاٹ لینڈ کے دارالحکومت میں ہونگے ۔لیکن دو ریٹائرڈ جنرنیلوں کی لڑائی اورپاکستان ہاکی فیڈریشن کی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری نے پاکستان ایک یقینی میڈل سے محروم کر دیا۔جس پر اب وہ کف افسوس مل رہے ہیں۔ورلڈ کپ اور دولت مشترکہ کھیلوں میں ہاکی کا باب کو بند ہو چکا ہے۔ لیکن ان کے پاس جنوبی کوریا میں ہونے والی ایشین گیمز ابھی باقی ہیں۔جس میں پاکستان نے اپنے اعزاز کا دفاع کرنا ہے۔چار سال قبل چین کے شہر گوانگزو میں ہونے والے ایشین گیمز میں پاکستان نے فائنل میں ملائیشیا کو شکست دیکر گولڈ میڈل حاصل کیا تھا لیکن اس مرتبہ گولڈ میڈل کی توقع رکھنا عبث ہے۔کیونکہ فیڈریشن کے عہدیداروں کی پالیسیوں نے قومی کھیل کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔اس سے زیادہ اب ہاکی میں ذلت ورسوائی نہیں ہو سکتی۔ایشین گیمز میں کامیابی کیلئے ایک جامع اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت تھی جو کم از کم دو سال قبل شروع ہونی چاہیے تھی۔ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داری ایک بار پھر سابق اولمپئین شہناز شیخ کے سپرد کر دی گئی ہے جن سے بہتری کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔کیونکہ ماضی میں بھی ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داریاں انہیں ملیں لیکن نتیجہ توقع کے برعکس ہی رہا۔اس مرتبہ انہیں پہلا ہدف ایشین گیمز کا ملا ہے۔لیکن وہ ڈانوڈول ہیں۔نجی محفلوں میں وہ اکثر کہتے ہیں کہ یہ ٹیم چار سال میں تیار ہوگی۔جس کا دوسرے الفاظ میں مطلب یہی عیاں ہوتا ہے کہ ایشین گیمز میں معرکہ خیز کارکردگی دکھانے والی ٹیم نہیں ہے۔فیڈریشن کے فیصلوں پر افسوس ہوتا ہے۔کہ شہناز شیخ جو پہلے بھی ٹیم کے ساتھ رہ چکے ہیں اور پاکستان نے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی۔اب وہ کیا جادو دکھائیں گے۔ان کی تعیناتی نئی بوتل میں پرانی شراب ڈالنے کے مترادف ہے۔ہمارے خیال میں چلے ہوئی کارتوس سے دوبارہ شکار کرنے کا خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔
اب ہاکی کو دوبارہ زندہ کرنے کیلئے ایک قومی سطح پر مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔جس میں حکومت سمیت تمام قومی اداروں اور تمام شعبہ ء زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنا اپنا فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔حقائق یہ ہیں کہ حکومت کی بھی قومی کھیل ہاکی پر کوئی توجہ نہیں ہے کیونکہ ہاکی کے پیٹرن انچیف وزیراعظم محمد نواز شریف ہیں۔اب وہ کرکٹ کے بھی سربراہ بن گئے ہیں۔ان کی پوری توجہ کرکٹ کی جانب اور نجم سیٹھی پر مرتکز ہے۔سب سے پہلے وہ سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی کی کرسی کو مضبوط کر سکیں ۔قومی کھیل ہاکی کے مسائل کی جانب ان کی کوئی توجہ نہیں ہے
دوسری جانب پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر چودھری اختر رسول اور سیکرٹری رانا مجاہدکوصحیح سمت میں ہاکی کے معاملات کو آگے بڑھانا ہو گا۔اختررسول برسر اقتدارمسلم لیگ (ن) کے متوالے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ان کی کوئی بات نہیں ٹالتے لیکن وہ اثرورسوخ رکھنے کے باوجود قومی ہاکی ٹیم کیلئے فنڈز نہیں لے سکے۔ان کی نا اہلی کی وجہ سے پاکستان تاریخ میں پہلی مرتبہ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں شرکت کیلئے ملائیشیا نہیں جا سکا۔ہاتھ پھیلانے کے باجود نہ صدر ممنون حسین، نہ وزیراعظم نواز شریف اور نہ ہی وزیرا علیٰ پنجاب شہباز شریف نے ان کو ہاکی کیلئے خیرات دی۔یوں ان کے مسلم لیگی ہونے کے دعویٰ کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ان سے قبل فیڈریشن کے صدر قاسم ضیا نے ہاکی فیڈریشن کو مالی مسائل سے آزاد کردیا تھا۔انہوں نے سیکرٹری آصف باجوہ کے ساتھ مل کر ہاکی کیلئے فنڈز بھی حاصل کئے اور ٹیموں کو غیرملکی دوروں پر بھیجنے کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک ہاکی کی بہتری کیلئے بھی اقدامات کئے۔جس پر یقیناً خراج تحسین کے مستحق ہیں۔پاکستان ہاکی فیڈریشن کے چودھری نے مالی مسائل میں اضافہ کر دیا۔یوں ہماری ہاکی آج بھی لٹک رہی ہے۔ان سے کوئی بھی پوچھنے والا نہیںہے۔اگر کوئی دوسرا شخص فیڈریشن کا صدر ہوتا اور تعلقات کے باوجود حکومت ساتھ نہ دیتی تو وہ مستعفیٰ ہو جاتا۔وہ مستعفیٰ نہ ہوں لیکن ایسے اقدامات کریں جس سے ہاکی بہتر ہو اس کیلئے انہیں ایک مثبت سوچ کے ساتھ اقدامات اٹھانا ہونگے۔
ع۔اسجد
تیرہواں ورلڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ ہالینڈ میں شروع ہو چکا ہے۔اس ٹورنامنٹ میں دنیا بھر سے12ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔جن کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔گروپ’’اے‘‘ میں دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کے علاوہ ملائیشیا، بلجیم،بھارت، انگلینڈ اور سپین کی ٹیمیں شامل ہیں جبکہ گروپ’’بی‘‘ میں میزبان ہالینڈ کے علاوہ جرمنی، جنوبی افریقہ، ارجنٹائن،نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا کی ٹیموں کو رکھا گیا ہے۔ٹورنامنٹ کا فائنل15جون کو کھیلا جائے گا۔
ورلڈ کپ کے مقابلے کیوکیرا ہاکی سٹیڈیم اور گرین فیلڈز ہاکی سٹیڈیم میں کھیلے جا رہے ہیں۔ورلڈ کپ ہاکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کی ٹیم عالمی مقابلوں میں حصہ نہیں لے رہی ہے اس کی کوئی سیاسی یا تعصبانہ وجوع نہیں بلکہ نا اہلی کی وجہ سے ٹیم ان مقابلوں کیلئے کوالیفائی ہی نہیں کر سکی۔ایشیا سے بھارت، ملائیشیا اور جنوبی کوریا کی ٹیموں نے عالمی مقابلوں میں جگہ بنائی۔جس کا یقیناً پاکستان ہاکی فیڈریشن کے عہدیداروں کو افسوس ضرور ہو گا کیونکہ اس سے ان کا اور ان کی فیملی کا ایک ٹور ضائع چلا گیا ہے۔لیکن پوری قوم کو اس پر شدید دکھ بھی ہے اور غم و غصہ بھی ہے کیونکہ وہ قومی کھیل ہاکی کو بے حد پسند کرتے ہیں۔فیڈریشن کے عہدیدار بھی ہاکی کے کھیل سے محبت کرتے ہیں لیکن ان کی محبت میں پیسے بھی شامل ہیں۔اگرصرف محبت ہوتی تو آج پاکستان کی ہاکی ٹیم ہالینڈ میں کھیلے جانے والے ورلڈ کپ مقابلوں میں حصہ لے رہی ہوتی،بہرحال یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 13واں ورلڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ پاکستانی ٹیم کے بغیر ہالینڈ میں شروع ہوچکا ہے۔قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی اسلام آباد کے نصیر بندہ ہاکی سٹیڈیم میں ہیڈ کوچ شہناز شیخ کی منشا کے مطابق تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
ماضی میں پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم چار مرتبہ ورلڈ کپ کی ٹرافی اپنے نام کر چکی ہے۔1971ء میں سپین کے شہر بارسلونا میں ہونے والے عالمی کپ میں پاکستان نے کامیابی کے جھنڈے گاڑھے۔فائنل میں پاکستان نے میزبان سپین کو1-0سے شکست دیکر قومی پرچم دیار غیر میں بلند کیا۔دوسری مرتبہ پاکستان کو یہ اعزاز1978ء میں حاصل ہوا جب ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں ہونے والے مقابلوں میں کامیابی حاصل کی فائنل میں پاکستان نے ہالینڈ کو3-2ہرا کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔1982ء بھارت کے شہر بمبئی(موجودہ نام ممبئی) میں ہونے والے عالمی کپ کے فائنل میں مغربی جرمنی (اس وقت جرمنی دو حصوں میں منقسم تھی)کو3-1سے شکست دیکر ٹیم سرخرو ہوئی۔جبکہ آخری مرتبہ دنیا ہاکی کے عظیم کھلاڑی محمد شہبازاحمد سنیئر کی قیادت میں پاکستان کو 1994ء میں فتح نصیب ہوئی۔آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہونے والے مقابلوں کے فائنل میں ہالینڈ کو پنلٹی سٹروکس پر3-4 سے زیر کرکے پاکستان چیمپئن بنا اور قومی پرچم سر بلند کیا۔آج20 سال بعد چار مرتبہ کی عالمی چیمپئن مقابلوں سے خارج ہے۔
قومی کھیل ہاکی کیلئے شائد صدمات شروع ہو چکے ہیں۔پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن (پی او اے) کی لڑائی کی بدولت پاکستان کی ہاکی ٹیم کا کامن ویلتھ گیمز میں بھی شرکت سے ہاتھ دھو چکی ہے۔جو رواں سال سکاٹ لینڈ کے دارالحکومت میں ہونگے ۔لیکن دو ریٹائرڈ جنرنیلوں کی لڑائی اورپاکستان ہاکی فیڈریشن کی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری نے پاکستان ایک یقینی میڈل سے محروم کر دیا۔جس پر اب وہ کف افسوس مل رہے ہیں۔ورلڈ کپ اور دولت مشترکہ کھیلوں میں ہاکی کا باب کو بند ہو چکا ہے۔ لیکن ان کے پاس جنوبی کوریا میں ہونے والی ایشین گیمز ابھی باقی ہیں۔جس میں پاکستان نے اپنے اعزاز کا دفاع کرنا ہے۔چار سال قبل چین کے شہر گوانگزو میں ہونے والے ایشین گیمز میں پاکستان نے فائنل میں ملائیشیا کو شکست دیکر گولڈ میڈل حاصل کیا تھا لیکن اس مرتبہ گولڈ میڈل کی توقع رکھنا عبث ہے۔کیونکہ فیڈریشن کے عہدیداروں کی پالیسیوں نے قومی کھیل کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔اس سے زیادہ اب ہاکی میں ذلت ورسوائی نہیں ہو سکتی۔ایشین گیمز میں کامیابی کیلئے ایک جامع اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت تھی جو کم از کم دو سال قبل شروع ہونی چاہیے تھی۔ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داری ایک بار پھر سابق اولمپئین شہناز شیخ کے سپرد کر دی گئی ہے جن سے بہتری کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔کیونکہ ماضی میں بھی ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داریاں انہیں ملیں لیکن نتیجہ توقع کے برعکس ہی رہا۔اس مرتبہ انہیں پہلا ہدف ایشین گیمز کا ملا ہے۔لیکن وہ ڈانوڈول ہیں۔نجی محفلوں میں وہ اکثر کہتے ہیں کہ یہ ٹیم چار سال میں تیار ہوگی۔جس کا دوسرے الفاظ میں مطلب یہی عیاں ہوتا ہے کہ ایشین گیمز میں معرکہ خیز کارکردگی دکھانے والی ٹیم نہیں ہے۔فیڈریشن کے فیصلوں پر افسوس ہوتا ہے۔کہ شہناز شیخ جو پہلے بھی ٹیم کے ساتھ رہ چکے ہیں اور پاکستان نے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی۔اب وہ کیا جادو دکھائیں گے۔ان کی تعیناتی نئی بوتل میں پرانی شراب ڈالنے کے مترادف ہے۔ہمارے خیال میں چلے ہوئی کارتوس سے دوبارہ شکار کرنے کا خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔
اب ہاکی کو دوبارہ زندہ کرنے کیلئے ایک قومی سطح پر مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔جس میں حکومت سمیت تمام قومی اداروں اور تمام شعبہ ء زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنا اپنا فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔حقائق یہ ہیں کہ حکومت کی بھی قومی کھیل ہاکی پر کوئی توجہ نہیں ہے کیونکہ ہاکی کے پیٹرن انچیف وزیراعظم محمد نواز شریف ہیں۔اب وہ کرکٹ کے بھی سربراہ بن گئے ہیں۔ان کی پوری توجہ کرکٹ کی جانب اور نجم سیٹھی پر مرتکز ہے۔سب سے پہلے وہ سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی کی کرسی کو مضبوط کر سکیں ۔قومی کھیل ہاکی کے مسائل کی جانب ان کی کوئی توجہ نہیں ہے
دوسری جانب پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر چودھری اختر رسول اور سیکرٹری رانا مجاہدکوصحیح سمت میں ہاکی کے معاملات کو آگے بڑھانا ہو گا۔اختررسول برسر اقتدارمسلم لیگ (ن) کے متوالے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ان کی کوئی بات نہیں ٹالتے لیکن وہ اثرورسوخ رکھنے کے باوجود قومی ہاکی ٹیم کیلئے فنڈز نہیں لے سکے۔ان کی نا اہلی کی وجہ سے پاکستان تاریخ میں پہلی مرتبہ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں شرکت کیلئے ملائیشیا نہیں جا سکا۔ہاتھ پھیلانے کے باجود نہ صدر ممنون حسین، نہ وزیراعظم نواز شریف اور نہ ہی وزیرا علیٰ پنجاب شہباز شریف نے ان کو ہاکی کیلئے خیرات دی۔یوں ان کے مسلم لیگی ہونے کے دعویٰ کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ان سے قبل فیڈریشن کے صدر قاسم ضیا نے ہاکی فیڈریشن کو مالی مسائل سے آزاد کردیا تھا۔انہوں نے سیکرٹری آصف باجوہ کے ساتھ مل کر ہاکی کیلئے فنڈز بھی حاصل کئے اور ٹیموں کو غیرملکی دوروں پر بھیجنے کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک ہاکی کی بہتری کیلئے بھی اقدامات کئے۔جس پر یقیناً خراج تحسین کے مستحق ہیں۔پاکستان ہاکی فیڈریشن کے چودھری نے مالی مسائل میں اضافہ کر دیا۔یوں ہماری ہاکی آج بھی لٹک رہی ہے۔ان سے کوئی بھی پوچھنے والا نہیںہے۔اگر کوئی دوسرا شخص فیڈریشن کا صدر ہوتا اور تعلقات کے باوجود حکومت ساتھ نہ دیتی تو وہ مستعفیٰ ہو جاتا۔وہ مستعفیٰ نہ ہوں لیکن ایسے اقدامات کریں جس سے ہاکی بہتر ہو اس کیلئے انہیں ایک مثبت سوچ کے ساتھ اقدامات اٹھانا ہونگے۔
Comments
Post a Comment