• آفریدی کا ریٹائرمنٹ 'واپس' لینے پر غور

  • پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی کپتان شاہد آفریدی نے عوام اور اہلخانہ کے شدید دباؤ کے سبب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد ریٹائرمنٹ لینے کے فیصلے پر ازسرنو غور شروع کردیا ہے۔رواں سال مارچ میں 36 سال کے ہونے والے شاہد آفریدی پہلے ہی ٹیسٹ اور ایک روزہ انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر ہو چکے ہیں اور انہوں نے آئندہ ماہ ہندوستان میں ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے بھی ریٹائر ہونے کا اعلان کیا تھا۔تاہم اب شاہد آفریدی نے یو ٹرن لیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ واپس لینے کے فیصلے پر غور کر رہے ہیں۔مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو نے کے مطابق ’کیا آپ کرکٹ کھیلنے کا سلسلہ جاری کھیں گے‘ کے سوال کے کے جواب میں پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی کپتان نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا، میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ مجھ پر ٹی ٹوئنٹی سے ریٹائرمنٹ نہ لینے کیلئے بہت زیادہ دباؤ ہے۔آفریدی نے کہا کہ عوام اور میرے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ میں کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھوں کیونکہ پاکستان میں زیادہ باصلاحیت کھلاڑی سامنے نہیں آ رہے تو پھر میری جگہ کون لے گا۔انہوں نے کہا کہ ابھی میرے اہلخانہ، دوستوں سمیت بڑوں کا مجھ پر بہت زیادہ دباؤ ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مجھے ٹی ٹوئنٹی سے ریٹائر ہونے کی بالکل ضرورت نہیں لیکن سچ بتاؤں تو اس وقت میں صرف ورلڈ کپ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہوں جو میرے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔شہرہ آفاق آل راؤنڈر نے کہا کہ سب سے پہلے میں یہ دیکھوں گا کہ پاکستان ورلڈ کپ میں کہاں کھڑا ہے، کیا میں اپنی کارکردگی سے ٹیم کو آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہوں، میں اس بات کا جائزہ بھی لوں گا میں خود کہاں کھڑا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ میری فٹنس بہت زبردست ہے اور کرکٹ بھی کھیل سکتا ہوں لیکن میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد واضھ طور پر کچھ کہنے کے قابل ہوں گا۔اپنی جارحانہ بیٹنگ کیلئے شاہد آفریدی 2009 میں پاکستان کی انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں فتح کے مرکزی کردار تھے جہاں انہوں نے سیمی فائنل اور فائنل میں بہترین کرنے کے ساتھ ساتھ نصف سنچریاں اسکور کرتے ہوئے ٹیم کو چیمپیئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔وہ اب تک ولرڈ ٹی ٹوئنٹی کے پانچوں ایڈیشنز میں شرکت کر چکے ہیں اور اب تک سب سے زیادہ میچ کھیلنے کے ساتھ ساتھ ٹی ٹوئنٹی میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر بھی ہیں۔قیادت کی بات کی جائے تو آفریدی کا ریکارڈ خاصا ملا جلا رہا ہے جہاں 35 میچوں میں 19 میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا جبکہ 16 مرتبہ پاکستانی ٹیم کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔

Comments